Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

فیاض صاحب مطالعے میں مصروف تھے معاً وہ دروازے پر دستک دے کر اندر آیا۔

”آئیں طغرل!“ انہوں نے کاغذات ایک جانب رکھتے ہوئے گرم جوشی سے بھتیجے کا کھڑے ہوکر استقبال کیا۔

”پلیز…پلیز انکل! آپ اٹھیں نہیں۔“ اس نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

”کوئی بات نہیں یار ! آرام سے بیٹھو۔“ انہوں نے اپنے قریب جگہ دی۔ وہ چچا کی اسی بے تکلفی و دوستانہ اندازکا دلدادہ تھا۔
سوجھٹ ان سے جڑ کر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی ان کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔

”یہاں آکر کیسا محسوس کررہے ہو، بوریت تو نہیں ہورہی؟“

”بہت جلدی خیال آگیا ہے آپ کو میری بوریت کا…؟“ وہ ہنستا ہوا بولا۔

”دو ماہ کا عرصہ گزرنے کو ہے اور آپ اب پوچھ رہے ہیں، خیر دیر آید درست آید۔ میں بور بالکل نہیں ہورہا بہت خوش ہوں یہاں آکر۔
(جاری ہے)

“ انہوں نے پیار بھری نظروں سے بھتیجے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”مجھے آپ کی مدد و رہنمائی کی ضرورت ہے۔“

”کیوں نہیں … کیا مسئلہ ہے بتائیں تو…“ وہ سنجیدہ ہوگئے تھے۔

”مسئلے والی بات نہیں ہے انکل! وہ دراصل پپا کاروبار یہاں جمانا چاہ رہے ہیں اس کے لیے مجھے آپ کا وقت چاہیے۔ برو کر نے کمرشل ایریاز میں زمینیں دیکھی ہیں، میں چاہتا ہوں آپ چل کر دیکھیں تاکہ پھر میں فائنل کروں۔“ کئی ہفتوں سے وہ انہی مصروفیات میں الجھا ہوا تھا، پہلے دن ہی وہ ان سے تعاون چاہتا تھا مگر دیکھ رہا تھا وہ بے تحاشا مصروف تھے۔
صبح کے نکلے رات کو گھر آتے تھے، کھانے کے دوران گفتگو ہوتی تھی پھر کچھ دیر وہ اسٹڈی روم میں گزارتے اور پھر سونے چلے جاتے تھے۔ یہ ان کا معمول تھا وہ دیکھ رہا تھا فیاض صاحب خود کو بہت ہشاش بشاش ظاہر کرتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا شاید ان کو کچھ مسائل درپیش تھے۔ جو وہ کسی سے بھی نہیں کہتے تھے۔

آج اتوار ہونے کے باعث وہ اس کو اسٹڈی روم میں مل گئے تھے۔

”ہوں، کب چلنا ہے بتائیں“ا نہوں نے عینک اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

”جب بھی آج فارغ ہوں۔“

”اپنوں کے لیے فارغ ہی ہوتا ہوں، کل چلتے ہیں کام کے لحاظ سے وہ جگہ مناسب ہے یا نہیں، چھان بین کرتے ہیں۔“

”جی! یہ سب آپ کی ذمے داری ہوگی تعمیر سے افتتاح تک کی۔“ اس کے بھاری لہجے میں بلا کی کود اعتمادی تھی۔

”میری…؟ میں اتنی بڑی ذمے داری نہیں اٹھا سکوں گا بیٹے! یہ میرا وعدہ ہے آپ کو جب بھی میری مدد کی ضرورت پڑے گی ، مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔

فیاض جیسے میچور اور خوددار مرد کو شدید جھٹکا لگا تھا، ان کا بزنس چمڑے سے جڑا ہوا تھا جو ان کے کمزور پڑتے مالی مسائل اور ملک کے دگرگوں حالات کے باعث بد سے بدتر ہوتا جارہا تھا۔ وہ وقت کی اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ دوست و احباب تو درکنار ، بینک بھی ان کو قرضہ فراہم کرنے پر تیار نہ تھا۔ ایسے میں جب وہ خود مالی پریشانی کا شکار تھے، طغرل کی اس کھلی پیشکش پر وہ بوکھلاسے گئے تھے۔

”طغرل کو معلوم تو نہیں ہوگیا میری مالی پریشانیوں کا؟“ ان کے اندر یہ سوال برق کی طرح دوڑا تھا۔ وہ بغور اس کی ذہین آنکھوں میں جھانک رہے تھے گویا بھید پانا چاہ رہے ہوں مگر وہاں صرف روشنیاں تھیں۔

”دراصل انکل! میں اپنے پراجیکٹ پر علیحدہ کام کروں گا۔“وہ ان کی سوچوں سے بے خبر کہہ رہا تھا۔ اسی اثناء میں صباحت اسٹرابیری شیک کا گلاس لے کر وہاں حاضر ہوئی تھیں اور ان کو پیش کیے تھے۔

”یہاں تو ہر وقت چائے چائے کے چرچے ہوتے رہتے ہیں، میں نے سوچا کیوں نہ آج ٹھنڈا ٹھار سا اسٹرابیری شیک بناکر خود بھی پیوں اور آپ لوگوں کو بھی پلاوٴں۔ “صباحت اپنا گلاس لے کر وہیں بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”ہم تو چائے کے عادی لوگ ہیں، ہماری پہچان ہی چائے ہے۔ ہم خود شوق سے پیتے ہیں مگر کسی کو مجبور نہیں کرتے زبردستی پینے پر… کیوں طغرل بیٹے! آپ نے دیکھا ہم نے کبھی آپ کی آنٹی کو زبردستی چائے پلائی ہو؟ یہ اپنی مرضی سے کوئی نہ کوئی شیک پی رہی ہوتی ہیں، ہم کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے مگر ان کو ہماری ”چائے“ پر بہت اعتراض ہوتا ہے۔
“ان کا انداز خاصاشگفتہ تھا۔

”دل جلاتی ہے چائے۔“ وہ تنک کر گویا ہوئیں۔

”جو پہلے سے دل جلے ہوں ان کو بھلا چائے کیاجلائے گی۔“ وہ شاید شوخی میں کہہ گئے تھے۔ صباحت کو کسی کانٹے کی طرح چبھی تھی یہ بات، قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتیں، فیاض کسی کی کال آنے کے باعث وہاں سے معذرت کرتے ہوئے چلے گئے تھے، وہ ان کی پشت کو گھورتی رہ گئی تھیں۔

”آپ مائنڈ کرگئی ہیں آنٹی! انکل مذاق کررہے تھے آپ کو چڑانے کے لیے۔“ طغرل نے گھونٹ لیتے ہوئے ان کے بدلتے تیور دیکھ کر کہا۔

”نہیں، وہ مذاق نہیں کرتے۔ یہ ان کے دل کی آواز ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ اتنے سال گزرنے کے باوجودفیاض اس چڑیل کو دل سے نہیں نکال پائے ہیں، آج بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور آخری دم تک کرتے رہیں گے۔“ وہ روہانسی ہوگئی تھیں۔
گلاس بے دلی سے میز پر پٹخا تھا۔

شادی کی پہلی شب سے ہی وہ سوکن کے جلاپے میں مبتلا ہوگئی تھیں، مثنیٰ کو طلاق دینے کے ایک ماہ بعد ہی وہ ان کو دلہن بناکر لے آئے تھے، چند ماہ کی پری جب دادی کی گود میں تھی۔ غصے، جنون اور انتقام میں یہ سب ہوا تھا، صباحت صابر و دانش منددور اندیش عورت ہوتیں تو بہت آسانی سے ایک عورت کے ٹھکرائے ہوئے مرد کو محبت و چاہت نچھاور کرکے ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر کرسکتی تھیں مگر وہ اپنی کم صورتی کے سبب احساس کمتری کا شکار تھیں۔
مثنیٰ کو انہوں نے دیکھا ہوا تھا، ان کی بے تحاشا خوب صورتی سے وہ حسد کرتی تھیں ان کا حسن کسی آگ کی مانند ان کے اندر بھڑکنے لگا تھا۔ جب کہ محبت حسن سے مشروط نہیں ہوتی، یہ وہ چشمہ تھا جو احساسات کی زمین میں سے نکلتا ہے اور وجود کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔ رقابت کی آگ میں یونہی جلتی رہتی تھیں۔

”نہیں آنٹی! آپ اتنی سویٹ اور کیوٹ ہیں، انکل کسی اور کو یاد رکھ ہی نہیں سکتے، آپ بہت اچھی بیوی ہیں ان کی۔

”اچھا… آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں۔“ وہ مسکرائیں۔

”یقین کریں میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں۔“ اس کے انداز میں احترام تھا۔

###

امی نے فراخدلی سے اس کو معاف کردیا تھا نہ شکوہ نہ کوئی شکایت کی تھی، نہ ان کا انداز بدلا تھا، نہ لہجے میں تبدیلی آئی تھی، وہ اسی طرح شاکر و صابر تھیں مگر وہ خود کو ان کے آگے نگاہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھی۔
انہوں نے ماہ رخ کو رات کھانا کھانے کے بعد جانے دیا تھا، جانے سے قبل انہوں نے رجاء سے معافی مانگنے کا کہا تھا ساتھ امی سے بھی التجا کی تھی اسے معاف کرنے کی کہ انجانے میں جو خطا وہ کر بیٹھی تھی اس پر اس کو معاف کردیا جائے۔ رجاء نے روکر ماں سے معافی مانگی۔ رجاء کے ساتھ ماہ رخ بھی رورہی تھی زاروقطار، وہ اتنا روئیں کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
امی کو رجاء کو چھوڑ کر انہیں سنبھالنا پڑا۔

”رجاء! بہت خوش قسمت ہو، جو پہلے ہی قدم پرر رہنمائی مل گئی، غلاظت کے جوہڑ میں گرنے سے بچالیا گیا، ماں سے معافی بھی مل گئی، کچھ لوگ ایسے برے بدنصیب بھی ہوتے ہیں، جن کو نہ معافی ملتی ہے نہ رہنمائی اور نہ ہی ماں باپ۔“ امی نے انہیں پانی پلایا، تسلی دی مگر جاتے وقت تک ان کے آنسو تھمے نہ تھمے۔

”اس رات بہت عرصے بعد وہ امی کے ساتھ سوئی تھیں۔ تنہا کمرے میں سوتے ہوئے اس کو پہلی بار خوف محسوس ہوا تھا۔ امی ساری رات پڑھ پڑھ کر اس پر پھونکتی رہیں کہ سوتے میں بھی ڈرتی رہی تھی۔ صبح وہ ناشتہ کرکے فارغ ہی ہوئی تھیں کہ خالہ حاجرہ اپنے مخصوص انداز میں چلی آئی تھیں۔ فرش صاف کرتی رجاء کے ساتھ میں وائپرلرز اٹھا اس خیال سے کہ کہیں ان کو کل کے واقعے کی خبر تو نہیں مل گئی، وردہ کا گھر ان کی گلی میں تھا یا یہ بھی ممکن تھا کہ انہوں نے ماہ رخ کو اس گھر سے نکلتے دیکھ لیا ہو اگر ایسا ہوگیا تو وہ محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔

فکر کی ایک لہر اس نے امی کے چہرے پر بھی دیکھی تھی مگر وہ جلد ہی خود پر قابو پاگئی تھیں اور حسب عادت خوش دلی سے ان کو خوش آمدید کہا تھا۔“

”کل رات محلے میں عجیب انوکھا تماشا ہوا رضیہ بہن!“بیٹھتے ہی وہ اپنے سنسنی خیز انداز میں گویا ہوئی تھیں۔

”خیریت تو رہی نا؟“ رضیہ کا دل کانپ اٹھا تھا۔

”ہاں بس یہی سمجھ لو، اگر وہ لوگ یہاں رہتے تو نامعلوم کس کس کی عزت کو داغ لگتے، نامعلوم کتنے گھروں کے چراغ گل ہوتے۔

”کون لوگ… کس کی بات کررہی ہو حاجرہ! ہوا کیا رات کو…؟“

”وہ لڑکی… وردہ ، جو تمہاری بیٹی کی سہیلی تھی۔“ انہوں نے بیسن دھوتی ہوئی رجاء کی جانب دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا۔، وہ وردہ کے نام پر کانپ اٹھی تھی کہ نہ معلوم وہ اب کیا کہنے والی ہیں۔

”میں تمہیں پہلے کہتی تھی ، رجاء سے اس لڑکی دوستی مجھے کھٹکتی ہے۔
ارے وہ لڑکی شکل سے ہی چلتی پرزہ لگتی تھی۔ رجاء اور اس لڑکی کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا، کہاں یہ پردے والی لڑکی، کہاں وہ راہوں کی دھول۔“ وہ جتنا چاہ رہی تھی وہ فٹافٹ حقیقت بیان کردیں، بات اتنا ہی طول پڑ رہی تھی، ان کی عادت تھی اسی طرح سنسنی پھیلا کر بات کرنے کی۔

”رات میں ہوا کیاہے بتاوٴ تو سہی؟“رضیہ نے بی چینی سے کہا۔

”رات پولیس نے چھاپا مارا ہے ان کے گھر۔

”کیوں…؟“

”سنا ہے وہ غلط لوگ تھے، الٹے سیدھے دھندے تھے ان کے۔“

”سب پکڑے گئے؟“ پہلا موقع تھا جو رضیہ ان کی باتوں میں دلچسپی لے رہی تھیں کہ یہاں ان کی بیٹی کا معاملہ تھا، اگر کوئی بات بھی اس کے حوالے سے سنی گئی تو سالوں کی عزت لمحوں میں مٹی ہوجائے گی، یہی خیال اس وقت ان کو بدل گیا تھا۔ پودوں کو پانی دیتی رجاء زرد پڑگئی تھی۔
گناہ جان کر کیا جائے یا انجانے میں، ایسی ہی دہری اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

”نہیں !نامعلوم کس وقت بھاگ گئے وہ لوگ۔“ ان کے انداز میں بہت دکھ تھا کہ وہ ایک تماشا دیکھنے سے محروم رہ گئیں۔

”دراصل کل آدھے سے زیادہ محلہ اپنے محلے میں رہنے والے ہارون بھائی کے بیٹے کے ولیمے میں شریک تھا اس لیے کسی نے نہیں دیکھا اور نہ اتنی آسانی سے کوئی جانے دیتا؟ پولیس گھرسیل کر گئی ہے وارنٹ نکل گئے ہیں ان کے۔
“ رضیہ اور رجاء کے لبوں سے آسودہ سانسیں برآمد ہوئی تھیں۔ وہ اپنے رب کی مزید شکرگزار تھیں کہ یہاں بھی خدا نے سرخروئی عطا فرمائی تھی۔

”ہماری پولیس کو تم جانتی ہو، پکڑے بھی جائیں گے تو مک مکا کرکے چپ چاپ بھگادے گی۔“ حاجرہ نے ساتھ ہی پولیس پر بھی طنز کیا تھا۔

”اللہ سب کو ہدایت، توفیق دے نیک کام کرنے کی۔“ رضیہ ننے صدق دل سے دعا کی تھی۔

”رجاء سے اس کی اتنی دوستی تھی، کبھی اس نے فائدہ اٹھانے کی تو کوشش نہیں کی۔“ جو کھدبد ان کے دل میں ہورہی تھی وہ زبان پر آگئی تھی۔ وہ خاموش رہیں کہ جھوٹ بولنے کی ان کو عادت نہیں تھی اور حقیقت کس طرح بتائی جاتی کہ جس رسوائی پر اللہ نے پردہ ڈالا وہ کس طرح عیاں کرتیں۔

”کس طرح سے لوگ دھوکا دیتے ہیں، دیکھنے میں شریف و ملنسار تھے، کوئی ایسی بات ہی نہ تھی جس سے معلوم ہوتا کچھ گڑ بڑ ہے۔

“ حاجرہ ان سے سوال کرکے خود ہی جھینپ گئی تھیں، سوخود ہی جلدی سے بولیں۔

”باطن کی خبر اس ذات کو ہی ہوتی ہے جو سب کی ظاہرہ پوشیدہ باتوں سے واقف ہے، وہ ہی سب کے بھید جانتا ہے اور رازوں کا امین ہے۔“

”رجاء بیٹی کس کے ساتھ جائے گی کالج اور کوچنگ…؟ محلے کی کوئی لڑکی اس کے ساتھ پڑھتی نہیں ہے اول تو دور ایسا نہیں ہے کہ یہ تنہا کالج وغیرہ جائے اور اگر جانے کی کوشش بھی کرے گی تو کس طرح جائے گی؟ بچی کو تنہا نکلنے کی عادت جو نہیں ہے۔
“ ان کو نئی فکر لاحق ہوئی تھی۔

”اللہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بناہی دے گا، میں ساتھ جایا کروں گی، چند دنوں کی تو بات ہے امتحان تک تھوڑی مشقت کرنی پڑے گی مجھے۔“

”فکر مت کرنا، کبھی کبھی میں بھی چلی جایا کروں گی، تمہیں بہن کہا ہے خالہ کا حق تو ادا کرنا پڑے گا نا۔“ ان کے لہجے میں پہلی بارخلوص شامل ہوا تھا، وجہ رضیہ کی پرخلوص و مہربان شخصیت تھی جو ان کو بھی متاثر کرگئی تھی ، وہ خاصی دیر تک بیٹھی باتیں کرتی رہیں پھر گھر سے بچہ بلانے آیا تو چلی گئیں۔

”امی ! ابو کو معلوم ہوجائے گاوردہ کے گھر والوں کے بارے میں تو پھر وہ ناراض ہوں گے، کہ میں نے ایسی لڑکی سے دوستی کیوں کی؟“ رجاء ان کے قریب آکر بولی۔

”میں شکر کررہی ہوں، تمہارے ابوکاروباری کام کے باعث ایک ہفتے کے لیے کوئٹہ چلے گئے ہیں ورنہ یہاں ہوتے تو شاید ان کو یہ معلوم ہوجاتا پھر خدا جانے ان کا ردعمل کیا ہوتا؟ انہوں نے دبے لفظوں میں مجھ سے کئی بار کہا بھی تھا کہ تمہارا اس لڑکی کے ساتھ میل جول ، کالج وکوچنگ جانا ان کو بالکل پسند نہیں ہے۔
میں نے ہی اس کی اور تمہاری حمایت لی کہ ہماری بیٹی کی تربیت جن خطوط پر ہوئی ہے وہ اس کو بھٹکنے نہیں دیں گے۔“ 

”میں پھر بھی بھٹک گئی، آپ کے اعتماد کو کرچی کرچی کردیا ہے میں نے۔ امی! آپ نے مجھے معاف کردیا، شاید اللہ بھی معاف کردے مگر میں … میں خود کو کبھی معاف نہ کر پاوٴں گی، کبھی بھی نہیں۔ “ وہ ان سے لپٹ کر رودی۔

”چپ ہوجاوٴ، یہ آنسو تمہارے کچھ عرصہ بعد خشک ہوجائیں گے مگر تاحیات جب بھی ماضی کی کتاب کے اوراق پلٹے جائیں گے، ان میں شامل یہ چند ورق تمہیں ایسی ہی روحانی اذیت میں مبتلا رکھیں گے۔
“بہت سنجیدگی سے انہوں نے رجاء کے آنسو صاف کیے تھے۔

”امی! ابو کو وہاں سے آنے کے بعد معلوم ہوگیا تو پھر…؟“

”میرادل کہتا ہے ان کو معلوم نہیں ہوگا، کیونکہ اتنے دنوں تک بات دب جائے گی پھریہاں کے لوگ تمہارے ابو کا اتنا احترام کرتے ہیں فالتو بات نہیں کرتے ہیں اور ایسی بات تو بالکل بھی نہیں کریں گے۔“ انہوں نے تسلی دی۔

”ہم ابو کے آنے تک ماموں کے ہاں رہیں گے،میرا دل نہیں لگ رہا یہاں اور وہاں میں فاطمہ باجی سے نوٹس وغیرہ بھی لے لوں گی۔“

   2
0 Comments